ریاست اتر پردیش سیاسی اعتبار سے ملک کی سب سے اہم ریاست مانی جاتی ہے۔ یہاں لوک سبھا کی 80 نشستیں ہیں اور جو بھی اتر پردیش کو کنٹرول کرتا ہے اس کے لیے دلی کا راستہ بہت آسان ہو جاتا ہے۔ سابقہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے یو پی میں کلین سویب کیا تھا۔
لیکن اب الیکشن ریاستی اسمبلی کے لیے ہے۔ ریاست کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور اسمبلی کی 403 میں سے تقریباً 20 فیصد نشستوں پر مسلمان ووٹر فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ یو پی اپنے حجم کی وجہ سے تو اہم ہے ہی لیکن وہاں صرف ترقی کے ایجنڈے پر الیکشن نہیں لڑا جاتا، ریاست میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے سیکیولرزم بھی ایک بڑا انتخابی موضوع بن جاتا ہے۔
کچھ جماعتوں کو مذہبی تفریق سے فائدہ اٹھانے کے الزام کا سامنا رہتا ہے اور کچھ سیکیولرزم کے تحفظ کے پیلٹ فارم پر انتخابی میدان میں اترتی ہیں۔
اس پس منظر میں ایک طرف بی جے پی ہو گی اور دوسری طرف کانگریس، سماج وادی پارٹی اور مایاوتی کی
بہوجن سماج پارٹی۔ روایتاً مسلمان اب سماج وادی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے باپ بیٹے کی لڑائی اہم ہے۔
اگر مسلمان ووٹروں کو یہ لگتا ہے کہ سماج وادی پارٹی بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو وہ بہوجن سماج پارٹی کا رخ کر سکتے ہیں۔ سابق وزیرا علیٰ مایاوتی کو اس کا انتظار ہے اور انھوں نے مسلمانوں کو تقریباً سو ٹکٹ دے کر ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو ایک واضح سیاسی پیغام دیا ہے۔
تقریباً 30 سال سے کانگریس ریاست میں اقتدار سے باہر ہے اور فی الحال اس کی کوشش سماج وادی پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کی ہے لیکن باضابطہ طور پر ابھی کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
اگر یہ اتحاد ہن گیا تو ریاست میں سہ رخی مقابلہ ہوگا۔ یہ انتخابی دنگل ہے اور اسے جیتنے کے لیے ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتیں جو ممکن ہو گا کریں گی، حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ حکم میں کہا ہے کہ ووٹ مانگنے کے لیے مذہب یا ذات برادری کا سہارا نہیں لیا جا سکتا۔